انجمن ترقی اردو ہند کرناٹک کے بارے میں
انجمن ترقی اردو (ہند) کرناٹک
انجمن ترقی اردو (ہند): ایک سو برس کے مہتم بالشان سفر کی داستان
پدم شری پروفیسر اخترالواسع
یہ 1886 کی بات ہے جب سرسیّد کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ایوکیشنل نشست کے بطن سے شعبۂ ترقی اردو کے نام سے ایک تنظیم وجود میں آئی۔ یہ تنظیم اُن رفقا پر مشتمل تھی جو تاریخی ہنٹر کمیشن، عرفِ عام میں ایجوکیشن کمیشن کو بھی کہا جاتا ہے، قیام اُردو ہندی کے سیاسی پر سرسیّد کے رفقا پر مشتمل تھے، اس کمیشن کا قیام سرّد نے اس کا مقصد کرایا تھا۔ کہ ہندی اور اُردو کے درمیان خلیج خلیج کو پاٹا، یعنی انجمن ترقی اردو (ہند) کا روز ایک کردار کی طرف سے ایک ہندی مثبت تنظیم کا رہا جس نے اردو کے درمیان مفاہمت کے لیے عملی اقدام کیا۔ 1903 میں مسلم ایجوکیشن پیج کا نام علامہ شبلی نعمانی نے بدلتے ہوئے انجمن ترقی اُردو اُس وقت جب وہ اس کے سکریٹری اور مولانا ابوالکلام آزاد اسسٹنٹ سکریٹری منتخب کریں۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کا ایک مقصد جدید تعلیم سے زیادہ اُردو کو سرسید تحریک کی قائم کردہ تنظیم ایم او کالج میں مرکزی بنیاد پر قائم کرنا بھی ہے۔ اس بات کو بار بار دُہرانے کی ضرورت ہے کہ انجمن نے اپنے ادارے کے قیام سے آج تک ہندستان میں اردو کی بقا اور فروغ کے لیے ہمیشہ سیکولر بنیادوں پر تنازعہ جاری رکھا۔ آزادی کے بعد انجمن ہی اُردو کی نمایندگی تھی اور آج جتنے ادارے اُردو کی ترقی کے لیے گامزن ہیں، اُردو اکادمیاں سب کا قیام انجمن کی کوششوں کا مرہونِ منت ہے۔ بیش تر یونیستیوں میں اُردو شعبوں کا قیام اور مختلف ریاستوں میں اُردو کو دوسری زبان بنوانے کا سہرا بھی اور صرف انجمن ہی کے سر۔
بدنصیبی ملک کی آزادی اور تقسیم کے ساتھ اردو برِّصغیر کے مشاغل سے آئی لیکن اپنوں کی ضد نے کہا کہ دشنام کے ملک کے ملک کو قوم دوئموں کے پاکستان میں شامل نہیں ہیں۔ پھر یہ بھی ہوا کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق جو تقریباً 35 سال سے غیرمنقسم ہندستان میں اردو تحریک کی بڑی سربراہی کر رہے تھے وہ امیدوں کے ساتھ ہندستان سے پاکستان نقل مکانی کر گئے ہیں لیکن وہاں جا کر اردو مہم میں جو مغائرت کر رہے ہیں۔ رویہ یہ دیکھا کہ اس سے زندگی بھر گزر رہی ہے لیکن ہند میں مولانا ابواکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکرہ حسین کا راجہ نے انجمن ترقی اردو (ہند) کو ایک نئی، نیا عطا کیا اور مولانا آزاد اور پنڈت جوہر لعل نہرو کی بدولت آزاد۔ ہند کے دستور اردو کو آٹھ ممالک میں زندہ، جدید اور ہندستان گیر (پین انڈین) زبان کے طور پر قومی زبانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کی ہم گیر اور بیش بہا خدمات کی وجہ سے اسے ہندوستان کے قومی صدر کی بلا تفریقِ مذہب اور ملّت قربت اور حمایت حاصل رہی۔ ان میں بابائے قوم مہاتما صدر، ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو، ملک کے پہلے ہندستانی خاتون جنرل اور ایک انتہائی قدآور سیاسی انتشاراتی راج گوپال آچاریہ اور امام الہند مولاناابواکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین، جمہوریۂ ہند کے نام خاص طور پر۔ پر قابلِ ذکر اس کے علاوہ منشی پریم چند غیرمعمولی طاقت کے حامل قلم کار جن پر اردو اور ہندی بجا طور پر ناز کرتے ہیں وہ انجمن کے خیرخواہوں میں بھی شامل ہیں۔ انجمن ترقی اردو (ہند) نے لسانی تکثیریت کے ماحول میں ہندستان بھر میں اردو کے لیے۔ اس نے ہندستان گیئر پیمانے پر کی سطح سے اوپر تک اپنی 650شاخوں کے ذرائع کو بچائے رکھنے میں بڑا کام ہے۔ اب انجمن شاخ کی پشت پناہی کے بعد اس کے متحرک ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ غیر آباد میں اردو کا سفیر بن گیا۔ انجمن کی شاخ کی رجسٹریشن بھی جلد ہی۔ زبان و ادب کے معلم اور مفکر پروفیسر مسعود حسین خان کے بقول زبان تو خیر پیدا ہی ایک غیر معروف شعوری لسانی سمجھوتے وقت ہوتی تھی جو اسلامی، ایرانی اور ہند آریائی زبان کے ایک نمائندے بولی کے درمیان صہیونیوں کے تاریخی عمل سے ظہور۔ میں آیا اور جس نے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ہندستان کی کثرت میں وحدت کی داغ بیل ڈالی اور ہندی کو بھی اس کا لسانی نژاد اور تہذیبی وزیر عربی نژاد اور مشرقِ وسطیٰ فارسی کی وجہ سے استوار کرتے ہوئے، اسی طرح اپنی ترقی کی منزلیں طے کیں۔ شہرت کی معراج پر پہنچ کر وہ ایشیائی یکجہتی کی علامت بھی قرار پائی۔ اردو وہ پہلی ہندستانی زبان تھی جو سیکولر خیالات کے اظہار اور ترویج کا سب سے طاقت وروسیلہ بن گئی۔ اردو میں استعارے بھی قبول اتحاد کو قبول کر لیا گیا جو کہ تفریق و منافرت کے بجاے اور اتصال کے موئیّد۔ اردو زبان چوں کہ پیدا ہی تہذیبوں کی سوچ نہیں بلکہ اپنے وصال سے ہوئی، اسی طرح قیام کے روزِ اول سے انجمن نے اس زبان کو عام کیا کہ کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہر مذہب کو فکر کی زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس کے لیے، یہ اتفاق سوئے اتفاق نہیں کہ 1882 سے آج تک جو انجمن ترقی اردو (ہند) کے 13 صدور ہیں جن میں ایک عیسائی اور 6ہندو شامل ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
سر مارکیٹس واکر ارنالڈ ( 1903-1904 )
نواب سر عماد الملک سید محمد حسین بلگرامی (1913-1926) ( 2
سر راس مسعود (1926-1937) ( ۳
سر تیج بہادر سپرو (1937-1949) ( ۴
ڈاکٹر ذاکر حسین (1949-1956) ( ۵
کرنل بشیر حسین زیدی (1957-1962) ( ۶
پنڈت ہردیہ ناتھ کنزرو (1962-1972) ( ۷
پنڈت (جسٹس) آنند نرائن ملّا (1972-1979) ( ۸
مالک رام (1983-1988) ( ۹
سید حامد (1988-1993) ( ۱۰
پروفیسر جگن ناتھ آزاد (1993-2004) ( ۱
ڈاکٹر راج بہادر گوڑ (2004-2011) ( ۱۲
پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی (2011 سے حال) ( ۱۳
اور اس طرح انجمن ترقی اردو (ہند) نے ایک بار پھر اردو زبان پر مذہبی ٹھپّا ترتیب اور مذہب کی بنیاد پر اردو کو دیسا دینے کی کوشش کرنے کی کوشش کرنا، دونوں کے عزائم کو ناکام بنانا۔
1986 میں انجمن نے شبلی میموریل لائبریری کو زبان و ادب اور علم و معرفت کے شائقین کی مدد سے ایک ایسا کتب خانہ بنا دیا کہ کچھ ہی قیمت میں یہ لائبریری اپنی قابل رشک کلاس کی کتب اور عربی، فارسی اور اردو مخطوطات کی وجہ سے محققین سے۔ مصنّفین کے لیے اختیار کی پوزیشن اختیار کرنا۔ انجمن کے کتب کی شکل کا اندازہ ہے کہ اس سے جا سکتا ہے ہندستان میں ایران کلچرل ہاؤس نے اس کے فارسی مخطات کا ایک وضاحتی کیٹلاگ تیار کیا ہے۔ اسی طرح دنیا میں اردو کی سب سے بڑی ویب سائٹ ریختہ ڈاکٹر کام 2013 میں انجمن کی کتابوں کے ڈیجیٹائزیشن کے بعد ہی کام شروع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سہ ماہی ”اردو” کا نکلنا تو 1921 سے شروع ہوا تھا لیکن جب انجمن کا دفتر علی گڑھ چلا گیا تو اس کو ”اردو ادب” کا نام دوبارہ شائع کرنا شروع کیا گیا اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ پاکستان میں سہ ماہی ”اردو” کے نام سے جو رسالہ نکل رہا تھا اُس سے مختلف نظر آئے اور ابھی کچھ برسوں سے پہلے ڈاکٹر اطہر فاروقی نے اس کی ادارت کی ذمے داریاں سنائیں تو اسے ایک نئی علمی جہت اور ادبی معنویت عطا کی کہ آج یہ پوری دنیا میں جریدے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
انجمن کا کوئی ذکر ”ہماری زبان”” اس کے پہلے بجٹ اور اب ہفت امداد کے بغیر جس کی اشاعت مکمل نہیں ہو سکتی۔ کون کی وجہ سے ”ہماری زبان” کی اشاعت میں جو رخنہ ڈالنا وہ بس بحال ہونا چاہتا ہے۔ ”ہماری زبان” کی خوبی یہ تھی کہ اس کے ملک بھر میں اردو اور اردو سے متعلقہ تمام اہم خبریں آپ کو ایکجا مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک وہ زمانہ بھی تھا جب ”ہماری زبان” میں پروفیسر آل احمد سرور اور ان کی غیرموجودگی میں پروفیسر مسعود حسین خاں کے اداریے پڑھتے تھے۔ دونوں زبانیں اور سمت کو اپنے موضوع پر۔ انجمن نے بڑے شاعروں کے انتخاب کو بھی منظر عام پر لایا اور اس طرح اردو قاری اور شاعر دونوں رشتے کے لیے اہم کام انجام دیں۔ انجمن کی 130 سال کی تاریخ میں اب تک جو 8جنرل سکریٹریز ہوئے وہ بلا شبہ ”ہماری زبان” کے آفتاب و ماہتاب تھے اور موجودہ جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی جو سال بھی ہیں، جواں سال بھی ہیں اور جن کی پیدائش مستقبلشناس۔ بھی، وہ انجمن کو محفوظ رکھنے کے لیے فعال نہیں ہیں بلکہ اس کو نئی بلندیوں تک پہنچانا چاہتے ہیں اور ان کی خوش نصیبی دونوں کو پروفیسر صدیق قدوائی اور سربراہ سربراہ ملا ہے۔ قدم قدم پر ان کی رہنمائی بھی کرتا ہے اور ہمت بھی۔ ڈاکٹر اط فاروقی نے الکٹران ہر سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس زمانے میں ترقی اردو (ہند) کو نئے پروگراموں کے انداز میں ہمکنار کیا خاص طو رپرون زمانے میں ہمت کے ساتھ آن لائن پروگراموں کے بارے میں بتا دیا کی مائی میں وہ انتہائی ستائش ہے، اور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی سرپرستی میں ’’ڈرامہ‘‘ کے نام سے ڈرامہ اور دیگر فنونِ لطیفہ کا ایک علاحدہ شعبہ بنایا گیا ہے تاکہ میری ناقدری یا حالات کی مجبوری کی وجہ سے۔ پرفارمنگ آرٹس روبہ زوال کو بچایا جائے اور نیا رنگ و طاقت عطا کیا جائے۔ انجمن کے علاوہ ہندستان میں کسی اور ادارے کی ریپیٹری نہیں ہے۔ پروفیسر قدوائی ڈاکٹر فاروقی کے میرے انجمن سے بچوں کو اور ان کو گراں قدر انعام حاصل کرنے کے لیے دوسرے نمبر پر ہیں اور اس میں ان کا ادبی ٹرسٹ کے ساتھ انجمن کا اشتراک بہت زیادہ امکان ہے۔ انجمن اردو گھر کے آڈیوریم میں سمینار، ڈرامے، ادبی اجلاس سب شریک ہوئے۔ انجمن نے اپنے 130سال کے سفر میں ہمیں پہلے اسٹینڈرڈ انگلش اردو میں داخل کیا تو آزادی کے بعد اردو ہندی سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ اپنے قیام سے آج تک انجمن 1500 کے قریب کتابیں شائع کرچکی ہیں۔ ہم رہے ہیں صدور کے ساتھ جو اس جنرل سکریٹری ہیں جیسے:
علامہ شبلی نعمانی ( 1903-1905 )
نواب صدر یار جنگ حبیب الرحمن خان شیروانی (1905-1909) ( ۲
مولوی عزیز مرزا (1909-1912) ( ۳
بابائے اردو مولوی عبدالحق (1912-1947) ( ۴
قاضی عبدالغفار (1949-1956) ( ۵
پروفیسر آلِ احمد سرور (1956-1974) ( ۶
ڈاکٹر خلیق انجم (1974-2012) ( ۷
ڈاکٹر اطہر فاروقی (2012 سے حال) ( ۸
ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور موجودہ جنرل سکریٹری کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ انجمن کی نیک نامی اور اردو کے حقیقی فروغ کے لیے اسی طرح کام کرتے رہے۔
آخر میں نامناسب نہیں تو اس حقیقت کا اظہار بھی کیا جائے کہ ہندستان کی مختلف ریاستوں میں جو اردو اکیڈمیاں اور قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان یا اس سے پہلے ترقی بورڈ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ان سب کے پیچھے۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کی وہ خاموش کوششیں بھی کر رہی ہیں جن کا تذکرہ ہے آج کچھ لوگ اس سے ڈرتے نہیں ہیں کہ ان کی حمایت اور حمایت کم نہ ہو لیکن ان کا کہنا تھا کہ استغنا بھی عجیب چیز ہے۔ کی تمنا اور صلے کی پرواہ سے بے نیاز اپنی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا ڈھنڈھورا پیٹتے نہیں ہیں۔
انجمن ترقی اردو (ہند) کا سفر جاری ہے، ڈاکٹر آرنلڈ اور علامہ شبلی نعمانی سے لے کر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور ڈاکٹر اطہر فاروقی تک۔ ہماری دعا ہے کہ یہ سفر اسی طرح جاری ہے۔ انجمن ترقی اردو (ہند) زندہ باد، اردو زبان پائندہ باد۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز))